خیبر پختونخوا کے حکام کا کہنا ہے کہ سہولیات کی کمی اور اشیائے ضروریہ کی قلت کی شکایات کے بعد 2041 بے گھر ہونے والے کوکی خیل خاندانوں میں سے 1000 سے زائد 29 اکتوبر کو ان کی واپسی کے دوسرے مرحلے کے آغاز کے بعد سے وادی تیراہ کے علاقے تھور چھپر میں واپس آ چکے ہیں۔

تاہم ان کا اصرار ہے کہ واپس لوٹنے والے زیادہ تر افراد اپنے گھروں کی خستہ حالی، سخت موسم اور اشیائے ضروریہ کی شدید قلت کی وجہ سے جمرود اور پشاور واپس چلے گئے۔کئی خاندانوں نے نان فوڈ آئٹم کٹس سے سامان غائب ہونے اور نقد گرانٹ کی ادائیگی میں تاخیر کی شکایت کی، کچھ نے خود ہی نقل و حمل کے اخراجات کا انتظام کیا۔ان کا کہنا تھا کہ واپس آنے والے زیادہ تر افراد خاص طور پر خواتین اور بچوں کے لیے سرد موسم میں خیموں میں رہنا انتہائی مشکل ہے۔ 29 اکتوبر کو وطن واپسی کے آغاز کے بعد سے 2041 خاندانوں میں سے 1000 سے زیادہ تھور چپر چلے گئے ہیں۔

واپس لوٹنے والوں میں سے ایک قبت خان نے ڈان کو بتایا کہ پورے تھور چپڑ علاقے میں ایک بھی گھر رہنے کے قابل نہیں تھا کیونکہ یہ عمارتیں یا تو توپ خانے کی بمباری اور فضائی حملوں میں تباہ ہو گئیں یا شدید بارش اور برفباری کی وجہ سے منہدم ہو گئیں۔ انہوں نے کہا کہ واپس لوٹنے والے تمام افراد کو ان کی حفاظت کے لئے پناہ کی اشد ضرورت ہے کیونکہ سردیوں نے کاٹنا شروع کردیا ہے جبکہ پینے کے صاف پانی کی بھی ضرورت ہے کیونکہ زیادہ تر پانی کے چینلز اور قدرتی چشموں کو شدید بارشوں اور برفباری سے نقصان پہنچا ہے۔ واپس لوٹنے والوں نے مطالبہ کیا کہ خاندانوں کو معاوضے کی جلد ادائیگی کے لئے نجی املاک کی تباہی کے پیمانے کا تعین کرنے کے لئے فوری طور پر نقصان کا تخمینہ سروے شروع کیا جائے۔ تاہم صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی ڈائریکٹر ثوبیہ حسن تورو نے زور دے کر کہا کہ کوکی خیل خاندانوں کی تھور چپڑ میں واپسی کا عمل جاری ہے جس کے تحت ان میں سے ہر ایک کو خیموں اور غیر غذائی اشیاء کی شکل میں ہر ممکن مدد فراہم کرنے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تعاون سے 35 ہزار روپے کی نقد گرانٹ دی جائے گی۔

انہوں نے ڈان کو بتایا کہ پی ڈی ایم اے اسکولوں، صحت کے یونٹوں، سڑکوں کی تعمیر نو اور تباہ شدہ گھروں کے مساوی معاوضے کے ساتھ تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے کی بحالی کی ذمہ داری بھی اٹھائے گا۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وادی تیراہ کے تھور چپر کے حال ہی میں ڈی نوٹیفائیڈ علاقے میں 1091 بے گھر خاندانوں کو ان کے گھروں کو واپس بھیج دیا گیا جن میں 60 رہائشی کمپاؤنڈ شامل ہیں۔تاہم واپس لوٹنے والوں میں صرف 47 خواتین اور 27 بچے شامل ہیں کیونکہ دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں وسائل اور بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے زیادہ تر خاندانوں نے صرف مرد ارکان کو بھیجنے کو ترجیح دی۔ متاثرہ کوکی خیل خاندانوں نے احتجاجی مظاہرے کیے اور پشاور طورخم شاہراہ کو تقریبا دو ماہ تک بند رکھا تاکہ حکام کو 22 اکتوبر کو ان کی واپسی کے دوسرے مرحلے کا اعلان کرنے پر مجبور کیا جاسکے۔سرکاری ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ بارائی، دمن، پاکدرا، باغ کالے اور گھوکھے گاؤں سے بے گھر ہونے والے خاندانوں کی واپسی چند ماہ قبل مکمل ہو چکی ہے جبکہ نکئی، چنگئی، بختاخیل، ببر کچکول، تھوردرا، کھروالا اور کچکول سے بے گھر ہونے والے خاندانوں کی واپسی 25 مئی 2025 سے شروع ہوگی۔