آئینی بنچ کے لئے ججوں کے انتخاب کے لئے جے سی پی کا اجلاس آج
تمام معاملات آئینی بنچ میں لے جانے کے بجائے کچھ مقدمات ہمارے پاس چھوڑ دیے جائیں، جسٹس اعجاز الاحسن
جماعت اسلامی 26 ویں ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ جانے والی چھٹی جماعت بن گئی
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا اجلاس آج ہوگا جس میں 26ویں ترمیم کی روشنی میں آئینی بنچوں میں ججز کی نامزدگی پر غور کیا جائے گا۔ چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی نے گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کی جانب سے چیئرمین سینیٹ اور پارلیمانی رہنماؤں سے مشاورت کے بعد جے سی پی کے لیے کاغذات نامزدگی بھجوانے کے بعد اجلاس طلب کیا تھا۔26 ویں ترمیم میں آئین کی تشریح سے متعلق معاملوں کی سماعت کے لئے سپریم کورٹ میں آئینی بنچوں کی تشکیل کا تصور کیا گیا تھا۔ جے سی پی آئینی بنچوں کے لئے ججوں کی نامزدگی کے ساتھ ساتھ جے سی پی سیکریٹریٹ کے قیام پر بھی تبادلہ خیال کرے گی۔ اجلاس میں سینئر جج سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان، سینیٹر فاروق حامد نائیک، رکن قومی اسمبلی شیخ آفتاب احمد، ایم این اے عمر ایوب، روشن خورشید بھروچا، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، سینیٹر سید شبلی فراز، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور پاکستان بار کونسل کے نمائندے اختر حسین شریک ہوں گے۔
آئینی بنچ کو بھیج دیا گیا
جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ کی جانب سے اوور بلنگ سے متعلق کیس وکیل کے اعتراضات کے بعد آئینی بینچ کو بھجوا دیا۔ تاہم ہلکے پھلکے انداز میں جسٹس منصور نے ریمارکس دیئے کہ کم از کم کچھ معاملات کو آئینی بنچ میں لے جانے کے بجائے فیصلہ کرنے کے لیے ان کے پاس چھوڑ دیا جانا چاہیے۔ یہ تبصرہ ایس این جی پی ایل کی جانب سے اوور بلنگ سے متعلق نظرثانی درخواست کی سماعت کے دوران سامنے آیا جب وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست زیر التوا ہے لہذا اسے آئینی بنچ کو بھیجا جانا چاہئے۔ اس پر جسٹس شاہ نے کہا کہ کم از کم کچھ معاملوں کا فیصلہ باقاعدہ بنچوں کے پاس چھوڑ دینا چاہیے۔ اس کے بعد عدالت نے اس معاملے کو آئینی بنچ کے ذریعہ سماعت کے لئے نمٹا دیا۔
جماعت اسلامی کی درخواست
دوسری جانب جماعت اسلامی نے آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔ ایڈووکیٹ عمران شفیق کے ذریعے دائر درخواست میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ اس ترمیم کو آئین کی مختلف شقوں کے منافی قرار دیا جائے۔ جماعت اسلامی نے دلیل دی کہ اگر اعلیٰ ججوں کی تقرری کا اختیار ایگزیکٹو یا قانون سازوں پر چھوڑ دیا جاتا ہے تو یہ عدلیہ کی آزادی کے اصول کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہوگی۔ یہ اس طرح کی چھٹی درخواست ہے۔ اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، بلوچستان بار کونسل، بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر عابد شاہد زبیری کی جانب سے درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔سینئر سیاستدان افراسیاب خٹک نے اپنے وکیل خواجہ احمد حسین کے ذریعے بھی اس ترمیم کو چیلنج کیا۔
0 Comment