لندن(ڈیلی پاکستان آن لائن)برطانیہ میں مسلم مخالف سرگرم کارکن اسٹیفن یاکسلی لینن کو توہین عدالت کا اعتراف کرنے پر 18 ماہ قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔

شام کے پناہ گزین جمال حجازی نے لندن کی ہائی کورٹ میں یاکسلے لینن کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ دائر کیا تھا اور 2021 میں انہیں ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ انہیں ایک حکم امتناعی کے تابع بھی بنایا گیا تھا جس میں انہیں توہین آمیز بیانات دہرانے سے روکا گیا تھا۔یاکسلے لینن لندن کی وولوچ کراؤن کورٹ میں پیش ہوئے اور حکم امتناع کی خلاف ورزی کا اعتراف کیا۔ برطانیہ کے سالیسیٹر جنرل نے آن لائن انٹرویوز اور ‘سائلینسڈ’ نامی دستاویزی فلم میں تبصروں پر یاکسلی لینن کے خلاف قانونی کارروائی کی، جسے لاکھوں بار دیکھا جا چکا ہے اور جولائی میں لندن کے ٹریفالگر اسکوائر میں چلایا گیا تھا۔

سالیسٹر جنرل کی نمائندگی کرنے والے وکیل ایڈن ایرڈلے نے کہا کہ یاکسلے لینن کو تین مختلف مواقع پر توہین عدالت کا مرتکب پایا گیا تھا اور 2019 میں اس کے لئے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ ان کے خلاف الگ الگ مجرمانہ سزائیں بھی ہیں۔ یاکسلے لینن کی وکیل ساشا واس کا کہنا تھا کہ ‘انھوں نے ایسا ہی کام کیا اور وہ اپنا جرم قبول کرتے ہیں کیونکہ وہ اظہار رائے کی آزادی، آزادی صحافت اور سچائی کو بے نقاب کرنے کی شدید خواہش پر یقین رکھتے ہیں۔ ‘واس نے یہ بھی کہا کہ ‘سائلینسڈ’ کو امریکی سازشی تھیوریسٹ الیکس جونز کی انفووارز کمپنی کے ذریعے ‘مؤثر طریقے سے کمیشن’ کیا گیا تھا۔ جج جیریمی جانسن نے یاکسلے لینن کو 18 ماہ قید کی سزا سنائی ہے، جو جمعے کے روز گرفتار ہونے کے بعد حراست میں گزارے گئے تین دن سے بھی کم ہے۔ جج نے کہا کہ اگر یاکسلے لینن نے اپنی توہین عدالت کو ختم کرنے کی کوشش کی تو اس کی 18 ماہ کی سزا سے چار ماہ کی سزا ختم کی جا سکتی ہے۔ کچھ میڈیا اور سیاست دانوں کی جانب سے یاکسلے لینن پر تناؤ بھڑکانے کا الزام عائد کیا گیا تھا جس کی وجہ سے جولائی کے آخر میں ساؤتھ پورٹ میں ایک ڈانس ورکشاپ میں تین نوجوان لڑکیوں کے قتل کے بعد برطانیہ بھر میں کئی دن فسادات ہوئے تھے۔