سندھ ہائی کورٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کو چیلنج کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ اسے آئین کے خلاف قرار دیا جائے۔

گزشتہ ہفتے منظور ہونے والی آئینی ترمیم کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں یہ دوسری درخواست ہے۔ سپریم کورٹ میں بھی ایک چیلنج پیش کیا گیا ہے۔ دو وکلاء کی جانب سے دائر کی گئی حالیہ درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ ترمیم طریقہ کار میں بے ضابطگی وں اور عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کی بنیاد پر کی جا سکتی ہے۔ درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 239 کے تحت پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت سے ترمیم منظور نہیں کی گئی۔ درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کچھ قانون سازوں کو اس ترمیم کی حمایت کرنے کے لیے مجبور کیا گیا یا غیر قانونی طور پر شامل کیا گیا۔

اس کے علاوہ انہوں نے دلیل دی کہ قومی اسمبلی کے متعدد ارکان کی حیثیت سے متعلق تنازعات الیکشن ٹریبونلز میں زیر التوا ہیں۔ درخواست گزاروں نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کی کچھ شقوں نے آئین کی نمایاں خصوصیت اور بنیادی ڈھانچے کی “خلاف ورزی” کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ راولپنڈی بار ایسوسی ایشن (پی ایل ڈی 2015 ایس سی 401) کے معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو پارلیمنٹ کے ذریعے پامال نہیں کیا جا سکتا۔ اس ترمیم نے حکومت کو اعلیٰ عدلیہ کے چیف جسٹس اور دیگر ججوں کی تقرری کے ذریعے عدلیہ کو ‘کنٹرول’ کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔ اس سے ایگزیکٹو کو ججوں پر “اثر انداز” ہونے کا بھی موقع ملے گا کیونکہ “غیر عدالتی ارکان” کو اب جوڈیشل کمیشن آف پاکستان میں شامل کیا گیا ہے۔ درخواست گزار نے سندھ ہائی کورٹ سے درخواست کی کہ وہ اس درخواست کی سماعت کے لیے اپنے پانچ سینئر ترین ججوں پر مشتمل لارجر بینچ تشکیل دے۔ چند روز قبل ایک اور وکیل نے سندھ ہائی کورٹ میں اسی طرح کی درخواست دائر کی تھی اور کہا تھا کہ یہ ترمیم عدالتی آزادی اور اختیارات کی تقسیم کے اصولوں کے منافی ہے۔

کے بی اے کی ریلی

کراچی بار ایسوسی ایشن نے ترمیم کے خلاف ہفتہ کو سٹی کورٹس سے کراچی پریس کلب تک ریلی نکالی۔مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کے بی اے کے صدر عامر نواز وڑائچ اور سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نائب صدر زبیر احمد ابڑو نے ترمیم کو عدلیہ کی آزادی پر براہ راست حملہ قرار دیا۔