جمعیت علمائے اسلام (ف) نے ان افواہوں کی تردید کی ہے کہ مولانا فضل الرحمان مجوزہ آئینی ترمیم پر حکومتی اتحاد کی حمایت کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں، حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ ‘آئینی پیکج’ پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا فیصلہ حکومت نے ان کی درخواست پر ملتوی کردیا ہے۔

پارٹی ذرائع نے یہ بھی کہا کہ ترمیم کی مخالفت کے حوالے سے موقف تبدیل نہیں ہوا، انہوں نے اس معاملے کو ‘متنازع’ قرار دیا۔  جے یو آئی (ف) کے ذرائع کے مطابق حکومت نے مولانا فضل الرحمان کے مطالبے پر ترمیم ملتوی کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ ”اب یہ معاملہ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کے بعد اٹھایا جائے گا۔ پیر کے روز مولانا نے صدر اور وزیر اعظم کی دعوت پر فلسطین کے بارے میں ایک کثیر الجماعتی اجلاس میں شرکت کی اور حکمراں اتحاد کے بڑے رہنماؤں کے ساتھ بھی ملاقات کی، جس سے قیاس آرائیوں کو تقویت ملی کہ وہ حکومت کی حمایت کرنے پر راضی ہوگئے ہیں۔ تاہم پارٹی ترجمان کے مطابق ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے جبکہ اندرونی ذرائع نے اس ترمیم کو متنازع قرار دیا ہے جسے جے یو آئی (ف) کے سربراہ ‘موجودہ حالات میں’ قبول نہیں کریں گے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ جے یو آئی (ف) نے علیحدہ آئینی عدالت کی توثیق کی لیکن آئینی ترمیم پر تحفظات کا اظہار کیا۔ گزشتہ ماہ حکومت اور جے یو آئی (ف) کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے بارے میں پارٹی کے ایک سینئر عہدیدار نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ہماری تشویش عام فہم پر مبنی تھی- ہم نے اس دستاویز کا مطالبہ کیا تھا جسے ہمیں ووٹ دینا تھا، لیکن حکومتی مذاکراتی ٹیمیں ایسا کرنے میں ناکام رہیں۔’ جے یو آئی (ف) اب بھی توقع کرتی ہے کہ حکومت اس مسودے کو پارٹی کے ساتھ شیئر کرے گی۔ جے یو آئی (ف) کے رہنما نے کہا کہ وہ آئینی عدالت پر اپنا مسودہ بھی حکومت کے ساتھ شیئر کریں گے اور امید کرتے ہیں کہ حکومت بھی ایسا ہی کرے گی۔ جے یو آئی (ف) کے رہنماؤں نے سب کو ساتھ لانے کے لیے آزاد عدالت کے بجائے علیحدہ آئینی بنچ بنانے کی تجویز دی ہے۔

ترمیم پیش کرنے کے لئے تیار

دوسری جانب حکومت آئینی ترمیم پیش کرنے کے لیے تقریبا تیار ہے اور مسلم لیگ (ن) کے ذرائع کا خیال ہے کہ اس بار اسے پارلیمنٹ کے ذریعے جلد بازی میں منظور نہیں کیا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے الگ الگ اجلاس ہوں گے اور امکان ہے کہ یہ 18 اکتوبر بروز جمعہ کو ہوں گے۔ امکان ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کا اجلاس ایک ہی دن الگ الگ بلایا جائے گا اور ایک ایوان سے منظوری ملنے کے بعد اسی دن دوسرے میں ترمیم پیش کی جائے گی۔ دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے حکمران اتحاد مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی سے منسلک کچھ ایسے ارکان اسمبلی کو جیتنے کی کوشش کر رہا ہے جن کے ووٹ آئین کے آرٹیکل 63 اے پر نظر ثانی کے بعد کالعدم نہیں ہوں گے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی-ایم) کے سربراہ اختر مینگل سے بھی رابطے میں ہیں اور امید ہے کہ بی این پی کے دو سینیٹرز کی حمایت حاصل ہوجائے گی۔ حال ہی میں قومی اسمبلی سے استعفیٰ دینے والے سردار مینگل اب بھی ایوان کے رکن ہیں کیونکہ اسپیکر قومی اسمبلی نے ان کا استعفیٰ قبول نہیں کیا ہے۔