لاہور:(پاک آنلائن نیوز) لاہور ہائیکورٹ نے سموگ پر قابو پانے کے لیے طویل المیعاد پالیسی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے پنجاب حکومت کو صرف کاغذی کارروائی سے آگے بڑھ کر اقدامات کرنے کا حکم دے دیا۔

منگل کو ماحولیات سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیئے کہ پنجاب کو درپیش مسئلے کے حل کے لیے وفاقی حکومت کو بھی شامل کیا جائے۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق اور محکمہ ٹرانسپورٹ کے صوبائی سیکرٹری احمد جاوید قاضی بھی عدالت میں پیش ہوئے۔جج نے نوٹ کیا کہ حکومت کا موجودہ نقطہ نظر ناکافی ہے ، یہ کہتے ہوئے کہ اگر اس بار ستمبر میں سموگ نمودار ہوئی تھی تو یہ اگلے سال اگست میں آسکتی ہے۔جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ اسموگ سے نمٹنے کے لیے 10 سالہ پالیسی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ موجودہ حکومت نے اپنے پیشروؤں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن ابھی مزید کام کرنا باقی ہے۔

انہوں نے محکمہ تحفظ ماحولیات کے ڈائریکٹر جنرل عمران حامد شیخ کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے دیگر محکموں پر بھی زور دیا کہ وہ بھی اس پر عمل کریں۔ انہوں نے کہا کہ ٹرانسپورٹ کا شعبہ 70 سے 80 فیصد ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنتا ہے جس کی وجہ اسمگل شدہ کم معیار کے ایندھن کا استعمال ہے۔جج نے بیجنگ کی مثال دیتے ہوئے لاہور کے اندر قائم صنعتوں کے مستقبل پر غور کرنے پر زور دیا جہاں تمام صنعتوں کو شہر سے باہر منتقل کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ بیجنگ نے حل تجویز کیے تھے لیکن پنجاب حکومت نے انہیں سنجیدگی سے نہیں لیا۔اے جی پی نے جواب دیا کہ سموگ پر چین کی تجاویز پر عمل درآمد میں چیلنجز ہیں اور عدالت کو جلد ہی اس معاملے سے آگاہ کیا جائے گا۔انہوں نے عدالت کو بتایا کہ سموگ سے نمٹنے کے لیے پالیسی مرتب کر لی گئی ہے اور بجٹ بھی مختص کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگلے سال سے شہریوں سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ اکتوبر سے دسمبر تک شادیوں کے انعقاد سے گریز کریں۔تاہم جج نے تجویز دی کہ حکومت شادیوں پر پابندی عائد کر سکتی ہے اور انہیں ون ڈش پالیسی کے ساتھ ساتھ تین کے بجائے ایک تقریب تک محدود کر سکتی ہے۔جسٹس شاہد کریم نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے صرف اس وقت کارروائی کی جب عدالت کو ماحولیاتی مسائل کا علم ہوا۔ انہوں نے کہا کہ صورتحال پر قابو پانے کے لئے لاہور میں بڑے تعمیراتی منصوبوں کو روکنے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ جج نے ریمارکس دیے کہ سرکاری ملکیت والی اسپیڈو بسیں بھی کافی دھواں خارج کرتی ہیں، پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کی کیا بات کی جائے۔ انہوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ سموگ جنوری تک برقرار رہے گی۔ انہوں نے کہا، ‘یہ حکومت کے لیے ویک اپ کال ہے۔ جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیئے کہ اگلے سال کی منصوبہ بندی فوری طور پر شروع ہونی چاہیے، منصوبہ بندی حکومت کی ذمہ داری ہے اور عدالت مداخلت نہیں کرنا چاہتی۔جج کا خیال تھا کہ صرف اسکول بسوں کے مسئلے کو حل کرنے سے آلودگی میں نمایاں کمی لائی جاسکتی ہے۔