سندھ ہیومن رائٹس کمیشن (ایس ایچ آر سی) نے ڈاکٹر شاہنواز کنبھر کے ماورائے عدالت قتل کی فیکٹ فائنڈنگ/تحقیقات مکمل کرلی ہیں، جس میں قانونی خلاف ورزیوں، انتظامی ناکامیوں اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی غفلت کا نمونہ سامنے آیا ہے۔

یہ نتائج قانونی عمل میں نمایاں خلا، بنیادی حقوق کے ناکافی تحفظ اور حکام کی جانب سے مناسب کارروائی کے فقدان کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ایس ایچ آر سی کی رپورٹ میں مستقبل میں اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے فوری اصلاحات پر زور دیا گیا ہے۔ایس ایچ آر سی کی ایک ٹیم نے چیئرپرسن اقبال احمد ڈیتھو اور ریٹائرڈ جسٹس ارشد نور خان سمیت دیگر کی سربراہی میں 20 سے 27 ستمبر 2024 تک انکوائری کی۔فیکٹ فائنڈنگ مشن میں ڈاکٹر شاہنواز کے اہل خانہ، مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں سے ملاقاتیں شامل تھیں۔

تحقیقات میں عہدیداروں کی لاپرواہی، قانونی پروٹوکول پر عمل کرنے میں ناکامی اور فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں درج کمزور الزامات کا انکشاف ہوا۔انکوائری میں ‘پولیس کی سنگین بدانتظامی’ کا انکشاف ہوا، خاص طور پر ‘من گھڑت’ انکاؤنٹر کے انعقاد میں، جس کی تصدیق اب آئی جی سندھ کی جانب سے تشکیل دی گئی تحقیقاتی ٹیم نے کی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر شاہنواز کمبھار کو غلط طور پر توہین مذہب کے مشتبہ شخص کے طور پر شناخت کیا گیا تھا، یہ غلطی ممکنہ طور پر ایف آئی آر کے اندراج کے عمل میں نظام کی خامیوں کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔ان کی گرفتاری اور اس کے بعد ہونے والے مبینہ من گھڑت انکاؤنٹر کے بارے میں پولیس کی شفافیت کے فقدان کی وجہ سے صورتحال مزید بگڑ گئی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اندر احتساب کے اہم مسئلے کی نشاندہی ہوتی ہے۔رپورٹ کی ایک اہم سفارش ڈاکٹر شاہنواز کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے نکالنا ہے تاکہ موت کی وجہ معلوم کی جا سکے، جس سے تشدد اور دیگر زیادتیوں کے ثبوت مل سکتے ہیں۔

سوشل میڈیا کی جانب سے بنائی گئی ‘خطرناک’ رفتار

ایس ایچ آر سی کی رپورٹ میں سوشل میڈیا پر پیدا ہونے والی ‘خطرناک رفتار’ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، جس نے تشدد کے مطالبے کو بڑھاوا دیا اور اس المناک نتائج کو ہوا دینے میں کردار ادا کیا۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ یہ معاملہ ڈیجیٹل میڈیا چینلز پر سخت نگرانی کی فوری ضرورت کی نشاندہی کرتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نفرت انگیز تقاریر، اشتعال انگیزی اور ڈیجیٹل تشدد کو جرم قرار دینے کو ترجیح دی جانی چاہیے اور پرتشدد انتہا پسندی کے خلاف جامع جوابی بیانیہ تیار کیا جانا چاہیے، اس میں ‘پرتشدد انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے اور ڈیجیٹل دائرے میں عوامی گفتگو کو بہتر بنانے کے لیے پالیسی فریم ورک کی تکمیل کے لیے تیار کردہ پروگرامنگ اور اقدامات شامل ہیں’۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر شاہنواز کو منصفانہ ٹرائل کے آئینی حق سے محروم رکھا گیا، عدالت میں اپنا دفاع کرنے کی اجازت دینے کے بجائے پولیس انکاؤنٹر میں انہیں مار دیا گیا، یہ آرٹیکل 10 اے کے تحت ‘منصفانہ ٹرائل کے اس حق کی سنگین خلاف ورزی’ ہے۔

رپورٹ میں پولیس کے کردار کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر شاہنواز کی موت کا سبب بننے والا پولیس انکاؤنٹر آئی جی پی کی تشکیل کردہ خصوصی کمیٹی کی تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے اور یہ (انکاؤنٹر) پولیس کے طرز عمل کی سنگین خلاف ورزی اور اختیارات کے غلط استعمال کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایس ایچ آر سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہجومی تشدد میں پولیس کی ‘لاپرواہی یا ملی بھگت’ تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس پرتشدد ہجوم کی جانب سے ڈاکٹر شاہنواز کی لاش کی بے حرمتی کو روکنے میں ناکام رہی، اہل خانہ کی جانب سے پولیس کو آخری رسومات کے بارے میں مطلع کرنے کے باوجود قانون نافذ کرنے والے اہلکار ہجوم کی جانب سے بے حرمتی کے ارتکاب کے بعد ہی پہنچے، جس سے لاپرواہی یا یہاں تک کہ ملوث ہونے کا شبہ پیدا ہوا۔

‘ہجوم کے اکسانے’ کے بارے میں کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘توہین مذہب کے الزامات کے بعد شروع ہونے والے ہجومی تشدد سے نمٹنے کے لیے پولیس کی ناکافی کارروائی کی گئی۔ 14 شناخت شدہ افراد کے خلاف درج ایف آئی آر (191/2024) قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نامکمل ردعمل کی عکاسی کرتی ہے، کیونکہ مجرموں کی اکثریت ابھی تک نامعلوم ہے۔مذہبی انتہا پسندی سے نمٹنے میں متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کی مبینہ ناکامیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے ایس ایچ آر سی نے کہا کہ نفرت انگیز تقاریر اور اشتعال انگیزی پاکستان کے انسداد متشدد انتہا پسندی (سی وی ای) فریم ورک کو نافذ کرنے میں نمایاں ناکامی کی نشاندہی کرتی ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ نفرت انگیز تقاریر، ہجومی تشدد اور انتہا پسندانہ کارروائیوں کو روکنے میں ناکامی انسداد دہشت گردی اور انتہا پسندی سے متعلق نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) 2014، نیشنل کاؤنٹر وائلنٹ ایکسٹریمزم پالیسی گائیڈ لائنز 2018 اور سندھ ساؤنڈ سسٹم (ریگولیشن) ایکٹ 2014 پر عمل درآمد میں خرابی کی نشاندہی کرتی ہے۔ انکوائری میں سائبر کرائمز اور مبصرین کے لیے پولیس کی صلاحیت کی کمی کو بھی اجاگر کیا گیا ہے کہ ‘پولیس نے توہین آمیز مواد کی صداقت کی تصدیق کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) سے مشورہ کرنے میں غفلت برتی، جس کی وجہ سے قبل از وقت جرم کا اعلان کیا گیا’۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے سے نمٹنے سے تشدد میں اضافہ ہوا، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں اور عوامی بیانات نے مزید بدامنی کو ہوا دی۔